انڈونیشیا ، 19/ اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) مقامی حکام نے اطلاع دی ہے کہ انڈونیشیا کے مغربی صوبے کے قریب ایک کشتی دیکھی گئی ہے جس میں 100 سے زائد روہنگیا پناہ گزین سوار تھے، اور اس پر ایک لاش بھی موجود تھی۔ روہنگیا مسلمان میانمار میں بدترین ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد خطرناک سمندری سفر پر نکل کر ملائیشیا یا انڈونیشیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمیونٹی کے ایک رہنما، محمد جبل، نے بتایا کہ یہ کشتی جنوبی آچے ضلع کے ساحل سے تقریباً تین سے چار میل (پانچ سے چھ کلومیٹر) دور لنگر انداز ہے، اور اس کا انجن خراب ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشتی کی پہلی بار جمعہ کے روز نشاندہی کی گئی جب وہ اور دیگر مہاجرین کھانا اور پانی فراہم کرنے کے لیے وہاں پہنچے تھے، اور اس میں سوار افراد کی تعداد تقریباً سو کے قریب ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کشتی پر ایک لاش بھی تھی۔ اس میں بہت سے بچے بھی سوار تھے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ کشتی نظر آنے سے ایک روز قبل ایک روہنگیا خاتون کی لاش سمندر سے ملی تھی۔ مقامی پولیس کے سربراہ سبدا مان صابری نے تصدیق کی کہ وہ نسلی گروپ کی رکن تھی، لیکن اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکے کہ آیا وہ کشتی سے جڑی ہوئی تھی۔ جنوبی آچے کے ضلع کے ترجمان یوہلمی نے کشتی کے نظر آنے کی تصدیق کی لیکن کہا کہ مقامی لوگ مہاجرین کیلئے اگلے قدم کا فیصلہ کرنے سے پہلے صوبائی دارالحکومت بندہ آچے سے امیگریشن ٹیم کے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’’کیا انہیں (مہاجرین) انڈونیشیا لایا جائے گا؟ یہ امیگریشن کے اختیار میں ہے۔ اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔‘‘ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے کہا کہ اسے مقامی حکام نے جہاز کے بارے میں مطلع کر دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ مہاجرین کو فوری طور پر بچا لیا جائے گا۔ خیال رہے کہ بہت سے آچنی، روہنگیا کی حالتِ زار سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن کچھ مقامی لوگوں نے ان کی آمد کی مخالفت کرتے ہوئے ارکان پر سماج مخالف رویے کا الزام لگایا ہے۔ دسمبر ۲۰۲۳ء میں سیکڑوں طلبہ نے آچے میں ایک تقریب ہال پر دھاوا بولتے ہوئے، سو سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کی نقل مکانی پر مجبور کیا تھا۔